Categories
Journalism

Marcello Musto کی Immanuel Wallerstein سے گفتگو

سوال: تیس سال پہلے نام نہاد ’actually existing socialism’ کے خاتمہ کے بعد بھی دنیا بھر میں کارل مارکس کے حوالے سے کتابیں لکھی جا رہی ہیں،بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔کیا یہ حیران کن نہیں ہے؟یا آپ کا خیال ہے کہ جو لوگ سرمایہ داری کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں ان کے لئے انہیں مارکس کی فکر آج بھی درکار ہو گی؟

جواب: مارکس کے بارے میں ایک پرانی کہاوت ہے ۔آپ اسے اگلے دروازے سے باہر پھینکیں تو وہ عقبی کھڑکی سے اندر داخل ہو جائے گا۔یہی اب ہو رہا ہے۔مارکس اس لئے بھی releventہے کیونکہ آج ہم ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن کے بارے میں مارکس نے بہت کچھ کہا ہے اور جو اس نے کہا وہ سرمایہ داری کے بارے میں دلیل دینے والے دوسرے لکھاریوں سے مختلف ہے۔میں ہی نہیں بہت سارے کالمسٹ اور لکھاری مارکس کو آج بہت ہی مفید سمجھتے ہیں اور 1989کی پیش گوئی کے برعکس آج وہ نئے، بہت ہی مقبولیت کے دور میں ہے۔

سوال: دیوار برلن کے انہدام نے مارکس کو ان زنجیروں سے آزاد کروا دیا جس کا اس کے تصور سماج کے ساتھ بہت کم رشتہ تھا؟سویٹ یونین کے تحلیل ہونے کے بعد سیاسی منظر نے مارکس کے ایک ریاستی ڈھانچہ کے سربراہ ہونے کے کردار سے آزادی دلوانے میں مدد کی۔مارکس کی دنیا کی کیا تشریح ہے جو آج بھی دنیا کی توجہ کا مرکز ہے؟

جواب: میرے خیال میں جو لوگ مارکس کی دنیا کی تشریح کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ مارکس کی طبقاتی جدوجہد کو اولیت دیتے ہیں۔جب میں نے موجودہ مسائل کی روشنی میں مارکس کا مطالعہ کیا تو میں طبقاتی جدوجہد سے مراد عالمی لیفٹ کہتا ہوں۔ ۔جو کہ میری نظر میں رائٹ کے مقابلہ میں، جو کہ ایک فیصد کی غالباً نمانئدگی کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں آمدنی کے حساب سے دنیا کی آبادی کا نچلا 80%ہ کی نمائندگی کی کوشش کر رہے ہیں۔۔جدوجہد 19%کے لئے ہے جن کو آپ اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوسری، مخالف سمت میں نہ جائیں۔

ہم دنیا کے نظام میں سڑکچل کرائسس کے دور میں رہ رہے ہیں۔موجودہ سرمایہ داری نظام زندہ نہیں رہ سکتا لیکن کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس کا متبادل کیسا اور کیا ہوگا۔اس کے دو امکانات ہیں ایک ہے ’Spirit of Davos‘۔ The World Economic Forum of Davosکا ہئدف ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں سرمایہ داری کی بدترین خصوصیات ہوں۔سماجی ڈھانچہ ،اوپر سے استحصال اور دولت کا ارتکاز ۔۔۔اس کے متبادل ڈھانچہ، نظام جو کہ بنیادی طور پر زیادہ جمہوری اور مفاد عامہ کے لئے ہو۔طبقاتی جدوجہد بنیادی طور پر سرمایہ داری کے متبادل .نظام پر اثر انداز ہونے کوشش ہے۔

سوال :آپ کی درمیانہ طبقہ پر نظر مجھے Antonnio Gramsciکے نظریہ hegemonyکی یاد دلاتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ نقطہ یہ بھی ہے کہ سارے عوام کو سیاست میں حصہ لینے کے لئے کیسے متحرک کیا جائے۔یہ خاص طور پر نام نہاد عالمی جنوب میں بہت ضروری ہے جہا ں کہ آبادی کی اکثریت رہتی ہے اور جہاں پچھلی دہائیوں میں سرمایہ داری کی پیدا کردہ نابرابری میں اضافہ ہے ۔ ماضی کے مقابلہ میں ،ترقی پسند تحریکیں بہت کمزور ہو گئی ہیں ۔

ان ریجنز میں Neoliberal Globalisation مخالف قوتیں مذہبی بنیادپرستی اور Xenophobic پارٹیز کی حمائیت میں چلی گئی ہیں۔ہم اس رجحان کو مغرب میں بھی ابھرتا ہوا دیکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا مارکس اس نئے منظرنامہ کو سمجھنے میں مددگار ہے؟حال ہی میں شائع ہونے والی مطبوعات میں مارکس کی نئی شرحوں کے نتیجے میں شائد مستقبل میں عقبی کھڑکی سے اپنے بیانیہ میں مدد گار ثابت ہوں۔وہ اس لکھاری کا پتہ دیتی ہیں جو سرمایہ داری معاشرے میں سرمایہ اور محنت کے تضاد اور جدوجہد لیکر دوسری جہتوں کا بھی جائزہ لے۔

درحقیقت مارکس نے اپنا بہت سارا وقت غیر مغربی معاشروں اور سرمایہ داری کے محیط دائرہ کی کالونیزم میں تباہ کاریوں کے مطالعہ میں صرف کیا۔

مستقل طور پر مارکس کی شرح کے برعکس مارکس کے نظریہ سوشلزم اور پیداواری قوتیں عناصر ecological concernsان کی تحریروں میں نمایاں طور پر ابھرتے ہیں۔آخری بات یہ ہے کہ وہ بہت سارے ایسے موضوعات میں دلچسپی رکھتا تھا جن کو سکالرز مطالعہ مارکس میں نظر انداز کرتے ہیں۔جس میں potential of technologyقوم پرستی، نیشنلزم پر تنقید،ریاست سے آزاد اجتماعی ملکیت اور آج کے معاشرہ میں انفرادی آزادی

،ہمارے دور کے سارے بنیادی مسائل شامل ہیں۔ مگر مارکس کے ان نئے چہروں کے علاوہ ۔۔۔جو اندیا دیتے ہیں کہ اس کی فکر کے مطالعہ میں مستقبل قریب میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔

کیا آپ مارکس کے تین بہت بنیادی نظریات بتا سکتے ہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ دوبارہ توجہ کے لائق ہیں؟

جواب :سب سے پہلے مارکس ہمیں بتاتا ہے کہ سرمایہ داری معاشرہ کو منظم کرنے کا قدرتی طریقہ نہیں ہے۔The Poverty of Philosophyمیں جب کہ مارکس کی عمر صرف 29سال تھی اس نے بورژوا معیشت دانوں کا مذاق اڑایا تھا جو سمجھتے تھے کہ سرمایہ داری رشتہ قدرتی قوانین ہیں اور جو وقت کے اثرات سے مبرا ہیں۔مارکس نے لکھا کہ یہ تاریخ ہے کیونکہ ’جاگیرداری نظام میں پیداواری رشتے بورژوا معاشرہ سے مختلف تھے۔ ‘

مگر وہ جس کا اطلاق ان پیداواری رشتوں پر لاگو نہیں کرتے جن کی وہ حمائیت کرتے ہیں وہ سرمایہ داری کو ’قدرتی اور مستقل‘ سمجھتے ہیں۔میں نے اپنی کتاب ’Historical Capitalism‘ میں اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرمایہ داری تاریخی طور پر معرض وجود میں آئی ہے بعض پولیٹیکل اکانومسٹوں کے محمل اور غیر واضح خیالات کے برعکس۔میں نے بہت دفعہ اظہار کیا کہ سرمایہ داری کا تاریخی سرمایہ داری کے علاوہ کوئی وجود نہیں ہے۔یہ میرے لئے بہت ہی سادہ ہے کہ ہم مارکس کے بہت ممنون ہیںِ۔

دوسرا میں primitive accumulation کے نظریہ کی اہمیت پر بہت زور دیتا ہوں،جس کا مطلب ہے کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا جو کہ سرمایہ داری کی بنیاد ہے۔مارکس کو اس بات کی اچھی طرح سمجھ تھی کہ یہ بورژوا کے تسلط کا بنیادی عمل ہے۔یہ سرمایہ داری کے شروع میں تھا اور آج بھی ہے۔

آخر میں میں ’قدیم جائداد اورکمونزم ‘پر زیادہ توجہ چاہوں گا۔سویٹ یونین میں قائم نظام خاص کر سٹالن کے وقت ریاست ساری جائداد کی مالک تھی مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کا استحصال نہیں ہورہا تھا اور ان کو دبایا نہیں جا رہا تھا۔ان کا استحصال بھی ہو رہا تھا اور انہیں دبایا بھی جا رہا تھا۔ایک ملک میں سوشلزم ،جیسا کہ سٹالن نے کیا،یہ ایسا تصور تھا جس کا خیال کسی کو بھی بمعہ مارکس کو کبھی نہیں آیا تھا۔اس سے پہلے پیداواری رشتوں کی عوامی ملکیت ایک امکان تھا۔ان کی ملکیت کواپریٹوز کے ذریعہ بھی ہو سکتی تھی۔اگر ہم بہتر معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ کون پیداوار کر رہا ہے اور قدر زائد کون وصول کر رہا ہے،۔اگر ہم بہتر معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔اس سب کو دوبارہ منظم کرنا ہوگا سرمایہ داری کے مقابلہ میں۔ میرے نزدیک یہ بنیادی سوال ہے ۔

سوال: 2018مارکس کی دو صد سالہ پیدائش کی حوالہ سے کئی مطبوعات اور فلمیں اس کی زندگی پر بن رہی ہیں۔کیا اس کے بارے میں کوئی سوانح عمری آپ کی نظر سے گذری ہے؟

جواب: مارکس کی بہت مشکل زندگی تھی۔اس نے بہت ہی غربت کی زندگی گذاری،وہ بہت خوش قسمت تھا کہ اسے فریڈرک ایگلز جیسا کامریڈ مل گیا جس نے اس کی بہت مدد کی۔مارکس کی جذباتی طور پر بھی کوئی آسودہ زندگی نہیں تھی۔مگر وہ اپنی زندگی کا اہم کام کرنے میں مستقل مزاج رہا۔۔اس نظام کو سمجھنا جس میں سرمایہ داری پنپ رہی تھی۔۔قابل ستائش ہے۔جو اس نے خود ہوتے دیکھا۔مارکس antiquityکی تشریح نہیں کرنا چاہتا تھا،نہ وہ مستقبل میں سوشلزم کیسا ہوگا اس کا تعین کرنا چاہتا تھا۔یہ وہ کام نہیں تھے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔وہ سرمایہ داری نظام کو سمجھنا چاہتا تھا جس میں وہ رہ رہا تھا۔

سوال :مارکس ایک صرف ایسا دانشور نہیں تھا جو لندن کے برٹش میوزم میں ساری زندگی کتابوں میں کھویا ہوا تھا لیکن وہ ایک ایسا انقلابی تھا جو اس زمانے میں ہونے والی جدوجہد کا عملی حصہ تھا۔اپنے activism کی وجہ سے اسے نوجوانی میں فرانس،بیلجیم اور جرمنی سے نکالا گیا۔اسے جبراً انگلینڈ بدر ہونا پڑا جب 1848کے انقلاب کو شکست ہوئی۔اس نے رسالوں اور اخباروں کر سرپرستی کی اوراپنی ہمت کے مطابق ہمیشہ مزدوروں کی تحریک کی حمائت کی۔1864-1872وہ International Working Men’s Association دنیا کی پہلی مزدوروں کی بین القوامی تنظیم کا لیڈر تھا اور اس نے 1871میں قائم ہونے والے پیرس کمیون کا دفاح کیا،جو کہ تاریخ میں پہلا سوشلسٹ تجربہ تھا۔

جواب :ہاں یہ سچ ہے ہمیں مارکس کی militancy کو ضرور یاد رکھنا چاہئے،جیسا کہ آپ نے حال ہی میں اپنی کتاب Workers Uniteمیں لکھا ہے کہ اس کا Internationalمیں بہت اہم کردار تھاایک تنظیم جس کے ممبران جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور رہتے تھے اور اس وقت جدیدذرائع ابلاغ موجود نہیں تھے ۔مارکس کی سیاسی جدوجہد میں جرنلز م بھی شامل تھا۔یہ کام انہوں نے یہ کام دنیا کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ساری عمر کیا۔انہوں نے بطور صحافی کام بھی کیا اور روزی کمائی لیکن اس کو انہوں نے یہ سیاسی کام کے طور پر کیا۔وہ آزاد خیال کبھی نہ تھے بلکہ وہ ایک نظریہ سے وابستگی والے صحافی تھے۔

سوال:2017میں روسی انقلاب کی سویں سالگرہ کے موقع پر بعض دانشوروں نے مارکس اور اس کے نام نہاد ماننے والے جو بیسویں صدی میں بر سر اقتدار رہے کے درمیان تضاد پر روشنی ڈالی ہے۔مارکس اور ان کے درمیان کون سے بنیادی تضاد تھے؟

جواب: مارکس کے نظریات کی سادہ عام فہم تشریح کے برعکس اس کی تحریریں روشنی کا مینار ہے،جن میں باریک بینی اور تنواع ہے ۔

مارکس کا مشہور boutade یاد رکھنا چاہئے جس میں مارکس نے کہا تھا کہ ’اگر یہ مارکسزم ہے تو میں یقینناً مارکسسٹ نہیں ہوں‘۔مارکس ہمیشہ دنیا کی حقیقتوں کو سمجھتا، نہ کہ دوسرے دانشوروں کی طرح جو کہ عقیدہ کے طور پر اپنا نظریہ ٹھونستے تھے۔مارکس اکثر اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیتا تھا۔وہ ہمیشہ دنیا کے پیش نظر مسائل کے حل کے لئے مستقل تلاش میں رہتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی مدد گار اور مفید رہنما ہے۔

سوال: بات کو ختم کرنے کے لئے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے جنہوں نے مارکس سے ملاقات نہیں کی؟

جواب: میں پہلی بات نوجوانوں سے یہ کہوں گا کہ وہ اس کا مطالعہ کریں،اس کے بارے میں نہ پڑھیں بلکہ اس کو پڑھیں۔کم لوگ ہیں۔۔اس کے مقابلہ میں جو اس کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔۔جنہوں نے اسے پڑھا ہے۔یہ Adam Smithکے بارے میں بھی صحیح ہے ۔عام طور پر آپ ان کلاسیک کے بارے میں پڑھتے ہیں۔لوگ ان کے بارے میں خلاصوں کے ذریعہ پڑھتے ہیں۔وہ وقت بچانا چاہتے ہیں مگر درحقیقت یہ وقت کا زیاں ہے!آپ کو دلچسپ لوگوں کے بارے میں ضرور پڑھنا چاہئے، اس کے بارے میں دو رائے نہیں ہیں کہ مارکس انیسویں اور بیسویں صدی کا سب سے دلچسپ آدمی تھا۔ کوئی بھی دوسرا ان تحریروں اور تجزیوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

سو میرا نئی نسل کو پیغام یہ ہے کہ مارکس بہت ہی اہم شخصیت ہے جس کو ڈھونڈنا ضروری ہے مگر آپ کو اسے ضرور پڑھنا،پڑھنا چاہئے۔کارل مارکس کو پڑھیں۔

ترجمہ زمان خاں